نیویارک، 10مارچ (آئی این ایس انڈیا)عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ایک مطالعے کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک خاتون اپنے پارٹنر یا قریبی رشتے داروں کے ہاتھوں جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہے۔ خواتین کی یہ تعداد 73 کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے یہ تجزیاتی رپورٹ 2010 سے 2018 کے درمیان خواتین پر تشدد کے واقعات کا ڈیٹا سامنے رکھتے ہوئے مرتب کی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے حکام نے بتایا کہ تشدد عام طور پر کم عمری میں شروع ہوتا ہے۔ مطالعے میں یہ اخذ کیا گیا ہے کہ 15 سے 24 سال کی عمر کی ہر چار میں سے ایک خاتون کو کسی قریبی، بے تکلف دوست یا جاننے والے کے ہاتھوں بری طرح تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
قلیل اور طویل مدتی اثرات
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بے تکلف ساتھی کی طرف سے ہونے والا تشدد دنیا بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کی سب سے عام شکل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس برے سلوک کے عورت کی جسمانی اور ذہنی صحت پر قلیل اور طویل مدتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کو کلاڈیا گارشیا مورینو نے مرتب کیا ہے جو عالمی ادارۂ صحت میں جنسی اور افزائشی صحت کے شعبے کی سربراہ ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مسائل میں نامطلوب حمل اور جنسی اختلاط کے سبب پیدا ہونے والی بیماریوں کی بڑی شرح بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہت سی خواتین ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہوتی ہیں، بالخصوص ڈیپریشن اور اینگزائیٹی جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے جو خطرناک رویوں کی طرف لے کر جا سکتے ہیں۔
گارشیا مورینو نے کہا کہ اس طرح کے مسائل خودکشی کی صورت میں موت کی طرف بھی لے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہمیں معلوم ہے کہ 38 فی صد اور بعض رپورٹوں کے مطابق اس سے بھی زیادہ تعداد میں خواتین کا قتل ان کے ساتھ بے تکلف افراد کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ اور ہم ( اس تشدد کے ماحول کا) خودکشی یا خودکشی کی کوشش سے گہرا تعلق دیکھتے ہیں۔
غریب ترین ملکوں میں خواتین کے خلاف زیادہ تشدد
ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ کم یا کم تر متوسط ممالک کے اندر خواتین کو اس قسم کے تشدد کا زیادہ سامنا ہے۔ غریب ترین ممالک کے اندر 37 فی صد خواتین کو اپنے بے تکلف قریبی لوگوں کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد سے گزرنا پڑا ہے۔
اس طرح کے واقعات کی زیادہ شرح بحرالکاہل کے گرد کے علاقوں، جنوبی ایشیائی اور افریقی ممالک میں زیادہ دیکھی گئی ہے۔ سب سے کم شرح یورپ اور وسطی و جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں ہے۔
گارشیا مورینو کے مطابق ایسے علاقے جہاں سماجی اور اقتصادی ترقی کے اشاریے نچلی سطح پر ہیں، وہاں بے تکلف تعلقات میں تشدد کی متعدد وجوہات ہیں۔
اُن کے بقول "ہم جانتے ہیں کہ اقتصادی ترقی اور سخت گیر و کرخت صنفی معیار کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔"
گارشیا کہتی ہیں کہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک اور ایسے قوانین جو خواتین کو طلاق، بچے کی کفالت یا وراثتی معاملات میں مدد نہیں دیتے، یہ سب خواتین کے خلاف تشدد کا سبب بنتے ہیں۔
خواتین کی منظم تحریکوں کی کامیابی
گارشیا مورینو نے کہا کہ ایسے ممالک جہاں خواتین کی منظم تحریکیں موجود ہیں، وہ اس مسئلے سے نمٹنے میں زیادہ کامیاب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قریبی بے تکلف تعلقات والے ساتھی کے ہاتھوں تشدد کے رجحان کو کم کرنا اس مسئلے سے نمٹنے میں بے حد اہم ہے۔
اس مطالعاتی رپورٹ کے مصنفین نے بتایا ہے کہ امتیازی صفنی معیار، اقتصادی اور سماجی عدم مساوات سے نمٹنا، تعلیم تک رسائی اور محفوظ جگہ ملازمت کو یقینی بنانا اور دیگر اقدامات اس تشدد کو روکنے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔